انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہوں (امیمہ طارق)

انقلاب آئے گا

“بے خوف و بہادر سبین”
“انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو “
ماہر تعلیم مہناز محمود کی اکلوتی اولاد انسانیت کی الم بردار، سبین محمود ۲۰ جون ۱۹۷۵ میں کراچی میں پیدا ہوئیں ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی اور اعلی تعلیم لاہور میں کنیرڈ کالج (kinnaird college) سے حاصل کی۔سبین کی والدہ کا تعلق مشرکی پاکستان سے تھا تو بچپن سے ہی مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کے درمیان پلی بڑھیں اور سبین کی تربیت بھی اسی طرز پر کی۔آپ ہمیشہ کہتی تھیں کہ “دیکھو تمام انسان اچھے ہیں ، کسی بھی رنگ ،نسل ،مذہب یا ملک سے تعلق رکھنا اہم نہیں ،لیکن انسان اہم ہیں ،اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے کوئی امیر ہو یا غریب ہم سب برابر ہیں ،ایک دوسرے کا خیال رکھنا ،عزت کرنا اور اپنی نعمتوں کا شکر کرنا ہم سب پر فرض ہے ” ۔سبین ان تمام باتوں کا عملی جامہ تھیں۔
بچپن سے ہی انصاف پسند ،خود مختار ور آزاد خیال تھیں ۔ایک دفعہ اپنے اسکول کی پرنسپل سے جا کر شکایت کی کہ کیوں کرکٹ ٹیم میں صرف لڑکے ہی کھیل سکتے ہیں ،لڑکیاں نہیں ؟لڑکیاں صرف سوفٹ بال ہی کیوں کھلیں ؟ اور ایسے بیشمار سوالات جو انسان کو مشکل میں ڈال دیں ۔ہمیشہ اپنے دل کی سنی ،اپنے خوابوں کی تعبیر میں مصروف عمل رہیں ،کسی بھی شے کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
آزادی رائے اور انصاف کو فروغ دیا ۔آپ کی سب سے بڑی خواہش اس دنیا کو ایک پر امن جگہ بنانا تھی خاص کر عورتوں کے لیے یہی وہ جذبہ تھا جس نے ۲۰۰۶ میں ڈی سیکنڈ فلور (T2F) نامی ایک کیفے کی بنیاد رکھی جہاں ہر رنگ و نسل کے افراد ہر طرح کے موضوع پر آزادانہ گفتگو کر سکتے ہیں اس کیفے میں مختلف مباحثہ اور سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں جن میں انسانی حقوق اور ان کے مسائل پر مختلف لوگ نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ انکے حل بھی تجویز کرتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق اور بنیاد پرستی کی اس جنگ میں یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم ہار مان لیں یا ان باطل قوتوں کے خلاف جنگ کریں ۔لیکن سبین نے جنگ کا فیصلہ کیا اور انسانی حقوق کی الم بردار بن گئیں۔خدا ترسی ،انسانیت اور محبت کا پیکر تھیں ۔ ایک دفعہ ان سے اس جنگ کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا جس کے جواب میں کہتی ہیں کہ ” بری چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن ہم خوف کو خود پر قابو پانے نہیں دے سکتے۔کوئی بھی شے مفت حاصل نہیں ہوتی ۔ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے جو لازمی ادا کرنی پڑتی ہے
بلوچستان جو کہ رقبہ اور مادنیات کے لحاظ سے ایک امیر ترین صوبہ ہے لیکن ترقی اور انسانی حقوق میں سب سے پیچھے وہاں کی عوام ہمیشہ مسائل کا شکار رہی ،ہر سال ہزاروں بلوچ افراد کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ۔اسی مسئلے کے حوالے سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسس میں ایک بہت بڑا سیمینار منعقد ہونا تھا لیکن آخری موقع پر کسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ ہو گیا تو سبین نے انہی مہمان خصوصی کو اپنے کیفے میں مدعو کیا اور” اَن سائلنسنگ بلوچستان
(unsilencing Baluchistan take-2 )کے نام سے ایک پالان بحث منعقد کی۔اُس شام پہلے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا پھر بلوچستان کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا ۔سبین جانتی تھیں کہ وہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں لیکن وہ انسانی حقوق کی محافظ کبھی بھی حق کا
ساتھ دینے میں نہ گھبرائیں اور اسی تقریب سے واپسی پر۲۴ اپریل ۲۰۱۵ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئیں ۔
روشنی ہے صبح جیسی
چراغ اتنے جلا گیا وہ
اسے بجھا کہ نہ سمجھنا
کہ تم اندھیرا پھیلا سکو گے
سبین محمود اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن جس تحریک کا انہوں نے آغاز کیا وہ آج بھی زندہ ہے ۔ان کے دل میں انسانیت کا درد تھا ،انتہائی عاجز اور زندگی سے بھرپور تھیں ، انسانیت کے حقوق کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ۔کوئی بھی بات ،کوئی خوف آپ کی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکا۔ایک بہادر اور بے باک شخصیت کی حامل تھیں۔آپ کہتی تھیں کہ “خوف ہمارے ذہن میں بس ایک لکیر کی مانند ہے یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہونا چاہتے ہیں ۔خوف کو خود پر قابو پانے نہ دیں

بقلم امیمہ طارق

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here