ڈگری کےساتھ ہنربھی ضروری…

politics of pakistan

ڈگری کے ساتھ ہنر بھی ضروری ہے” یہ ایک ایسا جملہ ہے جس نے انسانی تاریخ کی کایا پلٹ  دی.

ٹویوٹا، ہینو، ہونڈا، سوزوکی، کاواساکی، لیگسس،  مزدا،مٹسوبشی، نسان  اور یاماہا  یہ تمام برانڈز جاپان  کے ہیں جبکہ chevorlet، hyundai اور daewoo کے تمام  پراڈکٹس جنوبی کوریا تیار کرتا ہے.  آپ اس  سے  اندازہ  کر سکتے ہیں کا اس کے بعد دنیا میںautomobiles کے اور  کونسے برانڈ رہ جاتےہیں. پوری مارکیٹ پر توانہوں نےقبضہ کیا ہواہے. آئی -ٹی اور الیکٹرانکس مارکیٹ کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے. sony سے لے کر canon کیمروں تک سب کچھ جاپان سے آتا ہے. ایل.جی اورسامسنگ جنوبی کوریا   سپلائی کرتا ہے. 2014 میں سامسنگ کا ریونیو 350  بلین ڈالرز تھا. acer لیپ ٹاپ تائیوان  بناتا ہے جب کہ ویت نام جیسا ملک بھی اپنے  ہیلی کاپٹر اور جہاز نہ صرف اپنے  لئے بناتا ہے بلکہ سپلائی بھی کرتا ہے. محض کیلیفورنیا میں بننے والا ہسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگواتا ہے.  خدا کو یاد کرنے کے لئے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ  ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں.

دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا آتا ہے. انہوں نے  اپنی نئی نسل کو ڈگریوں کے پیچھے بھگانے کے بجاۓ انہیں ٹیکنیکل کرنا شروع کر دیا ہے.  آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اور ووکیشنل سکولز انہی تمام ممالک میں ملیں گے. وہ اپنے بچوں کو صرف کمرہ جماعت  میں بلیک بورڈز کے سامنے ہی نہیں بٹھاتے بلکہ انہیں حقائق کی دنیا میں بھی لے کر جاتے ہیں. ان ممالک میں بچوں کا صرف 30-40 فیصد وقت کلاس میں گزرتا ہے. باقی وقت بچے اپنے شعبوں میں پریکٹیکل کر کے گزارتے ہیں. اس سے صرف انہیں رٹی  رٹائی باتوں کا ہی علم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں عملاً بھی اس چیز کا  پتا ہوتا ہے کیونکہ وو اس پر پریکٹیکل بھی کر چکے  ہوتے ہیں.اور ہم نے اگر ووکیشنل کالج بنا بھی لیا تو وہاں بھی ڈگریاں بانٹنا شروع کر دیں  کیوں کے ہم کسی کالج کو فنکشنل لیب ہی مہیا نہیں کر سکے –

دوسری طرف اب ہمارے تعلیمی  نظام اور ہمارے طلبہ کا حال ملاحظہ کیجئے. یہاں پر ہر شعبے میں بےشمار ڈگریاں ہونے کے باوجود صرف اور صرف رٹے کے کلچر کو فوقیت دی جاتی ہے اور  اس کلچرکے ساتھ چلنے والا ہی زیادہ نمبر حاصل کر سکتا ہے. ادھر طلبا کو نمبر  لینا سکھایا جاتا ہےاور اس طرح جی-پی-اے کی دوڑ میں ہر سال کئی طلبا اپنا مستقبل برباد کر دیتے ہیں. ہم صرف دھرتی پر ڈگری ہولڈرز ناکارہ لوگوں کا بوجھ ڈال رہے ہیں. یہ تمام ڈگری ہولڈرز ملک و قوم کو ایک چھوٹی سی پراڈکٹ بھی نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے صرف ہمارے نوجوانوں کو نمبر لینے کی ترغیب کی. ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری  محض ایک معمولی سی نوکری کے حصول کے لئے ہے. 

ہم اس قدر visionary ہیں کہ صرف لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا سوچ سکتے ہیں اور اس کام میں ہر سال  اربوں روپے خرچ  کر دیتے ہیں اور 10کلاس کے سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ تقسیم کر دیتے جن کو لیپ ٹاپ کا استعمال کا بھی نہیں پتا ہوتا اور اگر  ہم نے طلبا کی ترقی کا راز صرف لیپ ٹاپ کو ہی سمجھ لیا ہے تو کبھی لیپ ٹاپ کی فیکٹری بنانے کا بھی سوچ لیا ہوتا تا کہ کم از کم خرچ کر کے لیپ بانٹ سکتے. ہمارے ملک میں اوپر سے لے کر نیچے تک  کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا.  آپ philippines کی مثال ہی لے لیں. philippines نے پورے ملک میں ہوٹل، ٹورازم اور hospitality مینجمنٹ کے شعبے کو ترقی دی ہے اور اپنے نوجوانوں کو ڈپلومے کرواۓ ہیں. یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپپنس کے سیلز پرسنز اور ریسٹورنٹ اسٹاف کی ہے. 

یہاں تک کے  ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی ان تمام شعبوں میں بہت آگے نکل چکا ہے.  آئی-ٹی میں سب سے زیادہ نوجوان پوری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں. اس کے علاوہ بھی آپ کو دنیا کے ہر بڑے ملک میں بھارت کے پروفیشنلز ملیں گے وو بھی سب سے زیادہ تعداد میں. یہ سب پروفیشنلز ڈپلوما ہولڈرز ہیں اور پاکستانی ڈگری ہولڈرز سے نہ صرف زیادہ کما رہے ہیں بلکہ ان سے اچھی پوسٹس پر بھی فائز ہیں اور ان سے زیادہ  کامیاب بھی ہیں. کیونکہ پوری دنیا آج کل سکلز کو زیادہ اہمیت دیتی ہے.

چینی لوگوں کی کہاوت ہے کہ”اگر  تم واقعی کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اسے مچھلی دینے کے بجا ۓ مچھلی پکڑنا سکھا دو” . چینیوں کو تو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کاش کے ہمیں بھی یہ بات جلد سمجھ آ جائے.  ہنرمند آدمی کبھی بھوکا نہیں سوتا. ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، پریکٹیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن کو اہمیت اور فروغ دیں تاکہ اس تیز دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں.

خدارا اپنے ملک میں ڈگری ہولڈرز کے ساتھ ساتھ ہنرمند بھی پیدا کیجئے.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here