دھنیے کا تیل- تحریر ڈاکٹر محمد رضوان ملہی

Rizwan Malhi

جمیل نے گاڑ ی نکالی اور اس کی منزل نیازی ہوٹل تھی جو کہ شہر کی رکشہ مارکیٹ کے بیچ واقع تھا۔۔۔۔۔۔۔ جمیل نیازی ہوٹل کے راستے سے واقف نہیں تھا اور نہ ہی پہلے کبھی اس ہوٹل میں گیا تھا۔ اس لیے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی زینت اسے ہوٹل کا راستہ بتا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔دھیمی آواز میں میوزک گاڑی میں چل رہا تھا جو کہ اسے کمپنی سے ملی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
”یار اتنے عرصے سے تم اس شہر میں رہ رہے ہو اور تمہیں کسی محفوظ ہوٹل کا علم نہیں۔۔۔۔۔“ زینت نے جھلاتے ہوئے جمیل سے کہا۔
”قسم لے لو میں نہیں جانتا۔میں کبھی ہوٹل میں رہا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی ایسا اتفاق ہوا ہے۔بھلا میں تم سے کیونکر جھوٹ بولوں گا۔۔۔۔۔۔“ جمیل نے زینت کو یقین دلا نے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں جیسے میں تو ہر روز ہوٹلوں میں آتی جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔“ زینت نے ترش لیجے میں جواب دیا۔
دھیمے میوزک میں دونوں کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
”بس بس یہاں ُپل کے نیچھے سے دائیں طرف موڑ لو۔ مجھے ہوٹل کے دروازے پر اتار دو اور خود گاڑی تھوڑی سائیڈ پر لگانا۔تصور بھی اکثر یہیں سے گاڑی ٹھیک کروانے آتا ہے۔یہ نہ ہو وہ آپ کی گاڑی پہچان لے۔۔۔۔۔۔ “ زینت یہ کہہ کر گاڑی سے اتری اور ہوٹل کے استقبالیہ پر جا کر کھڑی ہو گئی
تصور بھی اسی کمپنی میں ملازم تھا جس میں زینت اور جمیل کام کرتے تھے۔تصور شائد اس کمپنی کے مالک کا دور کا رشتہ دار بھی تھا۔۔۔۔ جمیل کو اس کمپنی میں نوکری دلوانے والی بھی زینت ہی تھی۔اسی لیئے جمیل زینت کا اکثر ممنون ہی پایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
جمیل نے گاڑی پارک کی اور بہت ہی محتاط انداز میں چلتا ہوا ہوٹل کے اندر داخل ہوا۔
”بھائی جان آپ کے پاس کمرہ دستیاب ہے؟ ہم تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔“ جمیل نے استقبالیہ پر کھڑے آدمی سے پوچھا۔
”جی بالکل ہے۔ اپنا شناختی کارڈ دیجیئے“۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے جواب دیا۔ جو کہ اپنے حلیے اور لباس سے ہوٹل کا مالک معلوم ہوتا تھا۔
”کتنا کرایہ ہے کمرے کا۔۔۔۔؟“ جمیل نے بٹوے سے اپنا شناختی کارڈ نکال کر دیتے ہوئے پوچھا۔
”دو ہزار روپے وہ بھی ایڈوانس۔“ ہوٹل کے مالک نے شناختی کارڈ پر موجودکوائف کا اپنے رجسٹر میں اندراج کرتے ہوئے جواب دیا۔
”بھائی جان! دو ہزار زیادہ نہیں۔۔۔۔! ہم تو تقریبا دو گھنٹے رکیں گے صرف۔۔۔۔۔ “جمیل بٹوا ہاتھ میں تھامے،زینت کی طرف دیکھ رہا تھا جو کہ قریب پڑے صوفے پر بیٹھی تھی۔

زینت نے تند نظروں سے جمیل کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ جلدی معاملہ ختم کرو۔۔۔۔۔۔
”آپ دو گھنٹے رکیں یا چوبیس گھنٹے۔۔۔۔ ریٹ فکس ہے۔۔۔۔۔“ ہوٹل کے مالک نے پیسے دراز میں رکھتے ہوئے کہا۔”اور ہاں! شناختی کارڈ واپسی پر ملے گا۔۔۔۔۔۔“
اگلے ہی لمحے زینت اور جمیل دونوں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بالا ئی منزل کے آخری کونے والے کمرے کا دروازہ کھول رہے تھے۔
”اگر برا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں!۔۔۔۔۔تمہیں اس ہوٹل کا کیسے پتہ تھا؟۔۔۔۔۔۔ میں تو کئی مرتبہ یہاں سے گزرا ہوں لیکن مجھے کبھی دکھائی نہیں دیا یا پھر کبھی غور نہیں کیا۔۔۔۔۔“ جمیل بیڈ پر بیٹھتے ہوئے زینت سے مخاطب ہوا۔اور سوال کرنے کی اجازت ملنے سے قبل،سوال کر ڈالا۔اور پھر خود ہی اس کا جوب بھی دے ڈالا۔
لیکن زینت،جمیل کے کیئے گئے سوال اور دیئے گئے جواب سے بے نیازموبائل کا کیمرہ چلا کر چھت،دیواروں اور کونوں کھدروں کی تصویریں بنا رہی تھی۔
”تم یہ کیا کر رہی ہو۔اندھیرے میں کیسی تصویریں بنا رہی ہو۔۔۔۔۔۔ خیر تو ہے“ جمیل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی خفیہ کیمرہ تو نہیں لگا کمرے میں۔اگرلگا ہو تو کیمرہ میں سرخ رنگ کا نشان نظر آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ فکر نہ کرومیں نے تسلی کر لی ہے۔۔۔۔۔“ زینت جمیل کی جانب پشت کیے اپنا نقاب اتارتے ہوئے اس کے سوال کا جواب دے رہی تھی۔
جب تک زینت نے برقع اتارا تب تک جمیل دیوار پر لگے شیشے میں زینت کا گول مٹول اجلا چہرہ دیکھ کر سکتے میں جا چکا تھا۔ اٹھے ہوئے لبوں کی سرخی جمیل کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔کچھ ہی دیر میں دونوں اک دوسرے کے نتھنوں سے نکلنے والی نرم و گرم ہوا کو محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔۔ جمیل پر سحر طاری ہو چکا تھا۔ اور وہ وقفے وقفے سے کچھ سونگھنے کی کوشش کر ہا تھا۔۔۔۔۔۔کچھ عجب سی بھینی سی خوشبو کا احساس اس کے دماغ میں سرائیت کر رہا تھا۔
اس بھینی سی خوشبو کے احساس اور اسے سونگھنے کی ہوس نے جمیل کو اور جمیل نے زینت کو دوبارہ کسی ہوٹل میں جانے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
”مجھے تمہار ی اس مہک کی لت لگ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری یہ مہک مجھے تمہارا دیوانہ بنا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ مہک مجھے تمہارے پاس کھینچ لاتی ہے۔۔۔۔۔۔ بہت مختلف ہے یہ مہک،بہت مسحور کن اور شگفتہ۔۔۔۔۔۔۔“ جمیل یہ سب کہتے ہوئے دیوانہ وار سونگھے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ”دیکھو تم ملنے سے اتنا کیوں کتراتی ہو؟۔۔۔۔۔۔ تم اگر انکار کرو گی تو میں اور بہک جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ اس مہک کی تلاش میں مجھے کسی اور کے پاس جانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے اور تمہاری اس خوشبو کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔ بس تم انکار مت کیا کرو۔۔۔۔۔“ جمیل ابھی تک دیوانہ وار سونگھے جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور زینت کے لبوں پر ایک پر اسرار  مسکراہٹ رقصاں تھی۔۔۔۔۔۔
جمیل گاڑی میں بیٹھا گھر کے راستے پر واپس جاتے صرف اسی خیال میں گم تھا کہ یہ بھینی سی مہک کیسی ہے؟ اور یہ اسے صرف زینت میں ہی کیوں محسوس ہوتی ہے؟۔۔۔۔۔
جمیل نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹیا۔۔۔۔ اس کی چھوٹی بہن نے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔ اور جمیل کو دیکھتے ہی چلانے لگی۔۔۔۔۔۔ بھیا میں نے بالوں کو گرنے سے روکنے کا نسخہ ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو دھنیے کا تیل۔۔۔۔۔ صرف سات دنوں میں اثر کرنے لگے گا۔۔۔۔۔۔۔
جمیل کو زینت کی مہک آج اپنے گھر میں ہی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالی ظرف کی کتاب

“شروع سے لے کر آخر تک”

سے اقتباس

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here