اللہ تبارک تعالی نے اس کائنات کو تخلیق کیا اللہ نے اس کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا گھر کی چار دیواری سے لیکر ایوان بالا تک شرق سے لیکر غرب تک سیاروں کی روشنی سے لیکر کنکریوں کی دھمک تک ستاروں کی تابانی سے لیکر ذروں کی چمک تک سورج کی تپش چاند کی ٹھنڈک اللہ تبارک تعالی کی وحدانیت کے راگ الاپ رہے ہیں
گویا حروف تہجی کے جتنے حروف ہیں ان سب سے بننے والے الفاظوں کو اگر دیکھا جائے تو ہر لفظ اللہ تعالی کی ربوبیت کو ظاہر کرتا ہے ہمیں بتاتا ہے کی اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں میں جب اس دنیا کے وجود کو دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں آیا جس دن ہم نے دیکھا ہو آج سورج نہیں نکلے گا آج سورج ریسٹ پر ہے کیا خوش اسلوبی سے نظم و ضبط سے دن اور رات بدل رہے ہیں اس لحاظ سے اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہے اگر ہم اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کونسی تخلیق سب سے بہتر ہے
تو یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ترین کام ہوگا کیونکہ آسمان کی بلندیوں اور پہاڑوں کی وُسعتوں کو اگر دیکھا جائے تو عقل دھنگ رہ جاتی ہے اگر جانداروں میں کسی بہتر تخلیق کا تجزیہ کرنا ہو تو اٹھارہ لاکھ جانداروں کی اقسام میں( جس میں نباتات بھی شامل ہیں ) سے ہم نے زیادہ سے زیادہ 1000 جانداروں کی قسموں کو دیکھا ہوگا اُن 1000 کی اگر درجہ بندی کی جائے تو میرے لحاظ سے عورت اللہ تعالی کی بہترین تخلیق ہے چاہے وہ ماں بیوی بیٹی اور بہو کے روپ میں ہو لیکن معاشرے میں جو عورت کا مقام ہے وہ عورت کو نہ مل سکا
عورت کو عورت ہونے کا حق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیا سرکار کی آمد سے پہلے عرب میں جو عورت کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا سب کو معلوم ہے گھر میں بیٹی دیکھنا باعث عبرت سمجھا جاتا تھا کسی شاعر نے عورت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے وجد زن سے ہی تصویر کا ئنات میں رنگ
میرے خیال سے اگر عورت نہ ہوتی تو انسانی زندگی کا وجود سرے سی نہ ہوتا عورت اللہ کی بہترین تخلیقوں میں سے ایک تخلیق ہے عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہے تو ساری زندگی اپنی اور اپنے والدین کی عزت کو سنبھال کر رکھتی ہے ارو سوچتی ہے کہ کوئی میری عزت کا رکھوالہ آئے گا اور مجھے پیار و محبت کے ساتھ نکاح کرے گا اور میں اپنی زندگی خوش اسلوبی سے گُزاروں گی لیکن ساری زندگی اپنی عزت کی راکھی کرنے والی بیٹی کو شادی کے بعد صرف ایک یا دو مہینوں کے لئے خاوند کا ساتھ ملتا ہے وہ کسی دوسرے ملک کمائی کے لئے چلا جاتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ دوسرے ملک میں کمائی کرنے والوں کو زیادہ ترجیح دینتا ہے
اس دوران شوہر 2 سال میں صرف تین مہینے چھٹی گزارنے کے لئے آتا ہے اور اور چلا جاتا ہے بیٹی اپنی زندگی صبر اور اپنی عزت کی رکھوالی پر گزار دیتی ہے اس دوران جس اذیت سے وہ گزرتی ہے اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے یہ ایک بیٹی کا عکس ہے پچھلے دنوں ایک بہت بڑے لکھاری کی بات یاد آ گئ خلیل الرحمن قمر نے میرے پاس تم ہو ڈرامہ سیریل میں بے وفا عورت کے لئے دو ٹکے کے الفاظ استعمال کئے جس پر بہت واویلا ہوا لیکن معاشرے کی دوغلی پالیسی ملاحظہ کریں عورت بے وفائی کرے تو دو ٹکے کی اور مرد بے وفائی کرے توکسی ٹکے کا نہیں لیکن ایسے مرد جو بالکل فارغ ہوتے ہیں
وہ گھر میں کام کرنے والی عورتوں سے بھی بد تر ہوتے ہیں ایسے مرد جو شادی سے پہلے تو پیار کی مالا جپتے نظر آتے ہیں جب اولاد ہو جاتی ہے تو وہ دو ٹکے کی عورت سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے ایسے لوگوں کو اپنے بچوں سےدکھلاوے کا پیار بہت ہوتاہے ایسے لوگ والدین پر بوجھ ہوتے ہیں لیکن ہڈ حرامی ان کے جسموں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ایسے لوگ انتظار کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات من وسلوی بیجھے گی اور زندگی پُر سکوں ہو جائے گی
لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت پائے جاتے ہیں مرد گھر کا سرکٹ نہیں چلائے گا عورت کیا کرے گی مرد ویسے تو بہت طاقتور بنتا ہے لیکن سوتا اُسی بیڈ پہ ہے جو عورت اپنے جہیز میں لاتی ہے آج کل کے معاشرے میں والدین پیسے دے کر اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنی بیٹیوں کا جہیز پورا کرتے ہیں
والدین میں اپنی بیٹیوں کے لئے اتنی شفقت ہوتی ہے کہ وہ اپنی دوائیوں کے پیسے بھی اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے رکھ لیتے ہیں اور وہ بیٹی اُس وقت مجبور ہوتی ہے نہ وہ ایسا کرنے سے والدین کو روک سکتی ہے اور نہ وہ ایسا کرنا مناسب سمجھتی ہے لیکن دل ہی دل میں اپنے عورت ہونے کا شکوہ اللہ سے کرتی ہے
یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے جس طرح بھی دیکھا جائے جس سمت سے دیکھا جائے عورت کے صبر کو سیلوٹ بنتا ہے میں عورت مارچ کی مزمت کرتا ہوں عورت کو وہ کام کرنا چاہئے جو اسلام کے عین مطابق ہو میرا خیال ہے پردہ عورت کو اس وقت بھی کرنا چاہئے جب سب مرد اندھے ہو جائیں لیکن بنت ہوا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ہم ہر بات میں عورت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں
ہمارے دین اسلام میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ عورت مرد کو کھانا پکا کہ دے اس کے کام کرے لیکن یہ بات فرض ہے کہ شوہر کی تعمیل کرے یہ عورت کی اعلی ضرفی ہے کہ وہ گھر کے سارے کام کرنے کے بعد اللہ کی ذات کا شکر ادا کرتی ہے اور عورت کی غیرت اور عزت کو سیلوٹ اس وقت بنتا ہے جب وہ اپنی ساری زندگی اپنے سسرال میں اپنے شوہر سسر ساس اولاد کی خدمت میں گزارتی ہے اور آخر پر محلے کی مسجد میں اعلان ہوتا ہے فلاں کی بہو اور فلاں کی بیوی قضائے الہی سے انتقال کر گئی ہیں اس وقت اللہ تبارک تعالی کو بھی عورت کی وفا پر رشک آتا ہوگا