سیلوٹ عورت – تحریر شان قدیر

shan qadeer writer

اللہ تبارک تعالی نے اس کائنات کو تخلیق کیا اللہ نے اس کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا گھر کی چار دیواری سے لیکر ایوان بالا تک شرق سے لیکر غرب تک سیاروں کی روشنی سے لیکر کنکریوں کی دھمک تک ستاروں کی تابانی سے لیکر ذروں کی چمک تک سورج کی تپش چاند کی ٹھنڈک اللہ تبارک تعالی کی وحدانیت کے راگ الاپ رہے ہیں

گویا حروف تہجی کے جتنے حروف ہیں ان سب سے بننے والے الفاظوں کو اگر دیکھا جائے تو ہر لفظ اللہ تعالی کی ربوبیت کو ظاہر کرتا ہے ہمیں بتاتا ہے کی اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں میں جب اس دنیا کے وجود کو دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں آیا جس دن ہم نے دیکھا ہو آج سورج نہیں نکلے گا آج سورج ریسٹ پر ہے کیا خوش اسلوبی سے نظم و ضبط سے دن اور رات بدل رہے ہیں اس لحاظ سے اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہے اگر ہم اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کونسی تخلیق سب سے بہتر ہے

تو یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ترین کام ہوگا کیونکہ آسمان کی بلندیوں اور پہاڑوں کی وُسعتوں کو اگر دیکھا جائے تو عقل دھنگ رہ جاتی ہے اگر جانداروں میں کسی بہتر تخلیق کا تجزیہ کرنا ہو تو اٹھارہ لاکھ جانداروں کی اقسام میں( جس میں نباتات بھی شامل ہیں ) سے ہم نے زیادہ سے زیادہ 1000 جانداروں کی قسموں کو دیکھا ہوگا اُن 1000 کی اگر درجہ بندی کی جائے تو میرے لحاظ سے عورت اللہ تعالی کی بہترین تخلیق ہے چاہے وہ ماں بیوی بیٹی اور بہو کے روپ میں ہو لیکن معاشرے میں جو عورت کا مقام ہے وہ عورت کو نہ مل سکا

عورت کو عورت ہونے کا حق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیا سرکار کی آمد سے پہلے عرب میں جو عورت کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا سب کو معلوم ہے گھر میں بیٹی دیکھنا باعث عبرت سمجھا جاتا تھا کسی شاعر نے عورت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے
وجد زن سے ہی تصویر کا ئنات میں رنگ

میرے خیال سے اگر عورت نہ ہوتی تو انسانی زندگی کا وجود سرے سی نہ ہوتا عورت اللہ کی بہترین تخلیقوں میں سے ایک تخلیق ہے عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہے تو ساری زندگی اپنی اور اپنے والدین کی عزت کو سنبھال کر رکھتی ہے ارو سوچتی ہے کہ کوئی میری عزت کا رکھوالہ آئے گا اور مجھے پیار و محبت کے ساتھ نکاح کرے گا اور میں اپنی زندگی خوش اسلوبی سے گُزاروں گی لیکن ساری زندگی اپنی عزت کی راکھی کرنے والی بیٹی کو شادی کے بعد صرف ایک یا دو مہینوں کے لئے خاوند کا ساتھ ملتا ہے وہ کسی دوسرے ملک کمائی کے لئے چلا جاتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ دوسرے ملک میں کمائی کرنے والوں کو زیادہ ترجیح دینتا ہے

اس دوران شوہر 2 سال میں صرف تین مہینے چھٹی گزارنے کے لئے آتا ہے اور اور چلا جاتا ہے بیٹی اپنی زندگی صبر اور اپنی عزت کی رکھوالی پر گزار دیتی ہے اس دوران جس اذیت سے وہ گزرتی ہے اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے یہ ایک بیٹی کا عکس ہے
پچھلے دنوں ایک بہت بڑے لکھاری کی بات یاد آ گئ خلیل الرحمن قمر نے میرے پاس تم ہو ڈرامہ سیریل میں بے وفا عورت کے لئے دو ٹکے کے الفاظ استعمال کئے جس پر بہت واویلا ہوا لیکن معاشرے کی دوغلی پالیسی ملاحظہ کریں عورت بے وفائی کرے تو دو ٹکے کی اور مرد بے وفائی کرے توکسی ٹکے کا نہیں لیکن ایسے مرد جو بالکل فارغ ہوتے ہیں

وہ گھر میں کام کرنے والی عورتوں سے بھی بد تر ہوتے ہیں ایسے مرد جو شادی سے پہلے تو پیار کی مالا جپتے نظر آتے ہیں جب اولاد ہو جاتی ہے تو وہ دو ٹکے کی عورت سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے ایسے لوگوں کو اپنے بچوں سےدکھلاوے کا پیار بہت ہوتاہے ایسے لوگ والدین پر بوجھ ہوتے ہیں لیکن ہڈ حرامی ان کے جسموں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ایسے لوگ انتظار کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات من وسلوی بیجھے گی اور زندگی پُر سکوں ہو جائے گی

لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت پائے جاتے ہیں مرد گھر کا سرکٹ نہیں چلائے گا عورت کیا کرے گی مرد ویسے تو بہت طاقتور بنتا ہے لیکن سوتا اُسی بیڈ پہ ہے جو عورت اپنے جہیز میں لاتی ہے آج کل کے معاشرے میں والدین پیسے دے کر اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنی بیٹیوں کا جہیز پورا کرتے ہیں

والدین میں اپنی بیٹیوں کے لئے اتنی شفقت ہوتی ہے کہ وہ اپنی دوائیوں کے پیسے بھی اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے رکھ لیتے ہیں اور وہ بیٹی اُس وقت مجبور ہوتی ہے نہ وہ ایسا کرنے سے والدین کو روک سکتی ہے اور نہ وہ ایسا کرنا مناسب سمجھتی ہے لیکن دل ہی دل میں اپنے عورت ہونے کا شکوہ اللہ سے کرتی ہے

یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے جس طرح بھی دیکھا جائے جس سمت سے دیکھا جائے عورت کے صبر کو سیلوٹ بنتا ہے میں عورت مارچ کی مزمت کرتا ہوں عورت کو وہ کام کرنا چاہئے جو اسلام کے عین مطابق ہو میرا خیال ہے پردہ عورت کو اس وقت بھی کرنا چاہئے جب سب مرد اندھے ہو جائیں لیکن بنت ہوا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ہم ہر بات میں عورت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں

ہمارے دین اسلام میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ عورت مرد کو کھانا پکا کہ دے اس کے کام کرے لیکن یہ بات فرض ہے کہ شوہر کی تعمیل کرے یہ عورت کی اعلی ضرفی ہے کہ وہ گھر کے سارے کام کرنے کے بعد اللہ کی ذات کا شکر ادا کرتی ہے اور عورت کی غیرت اور عزت کو سیلوٹ اس وقت بنتا ہے جب وہ اپنی ساری زندگی اپنے سسرال میں اپنے شوہر سسر ساس اولاد کی خدمت میں گزارتی ہے اور آخر پر محلے کی مسجد میں اعلان ہوتا ہے فلاں کی بہو اور فلاں کی بیوی قضائے الہی سے انتقال کر گئی ہیں اس وقت اللہ تبارک تعالی کو بھی عورت کی وفا پر رشک آتا ہوگا

محمد شان قدیر ایم فِل فزکس

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here