کل تک جو آپس میں دست و گریبا ں تھے (حافظ محمّد بلال)

politics of pakistan

پاکستان مسلم لیگ نواز کسی دور میں پاکستان کی سب سے بڑی جما عت تھی۔ اس میں کو ئی شک نہیں پاکستان پیپلز پارٹی بھی چاروں صوبوں کی جما عت رہی ہے۔لیکن بینظربھٹو کی وفا ت کے بعد جو حال پیپلز پارٹی کا ہواوہ سب کے سا منے ہے۔ پیپلزپارٹی اب صرف ایک صوبے تک محدود ہے  بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ وہ اب صوبے کی جما عت بھی نہیں رہی کیو نکہ کرا چی میں پیپلز پارٹی کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی اور اب بھی نظر آتی ہے اور سب سےزیادہ دفع پنجاب میں حکومت بھی مسلم لیگ نواز نے ہی کی ہے۔دیکھا جائے تو کسی دور میں انتخابات میں مقا بلہ پاکستان کی انہی دو جما عتوں میں ہو ا کرتا تھا یا پھر درمیان میں ڈکٹیٹرزکی حکومتیں بھی آئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے نظریات بلکل 180 ڈگری کے زاویے سے مختلف ہو ا کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں کا نٹے کی سیاست دیکھی جا تی تھی یہا ں تک نواز شریف یہ کہا کرتا تھا کہ یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والی عورت ہے۔تم ملک اس کے حوالے کر دو گے؟ بہت پرانی بات نہیں ابھی پچھلے انتخا بات کی بات ہے کہ شہباز شریف زرداری کو علی بابا اور چالیس چور کہا کرتا تھا اور مریم نواز اپنے انتخابی جلوسوں میں زرداری عمران بھائی بھا ئی کے نعرے لگوایا کرتی تھی، اور تو اور شہباز شریف نے تو یہ تک کہ دیا تھا کہ انتخابا ت کے بعد میں زرداری کو لا ہور ، پشاور ،کراچی اور لا ڑکانہ کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ پھر یوں ہوا کہ شہباز شریف نے آصف زرداری سے معافی بھی ما نگی اور گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا۔

یہ ملکیی سیاست کا ایک نیا موڑ تھا کہ وہ لیڈران جن کی سیاست میں دور دور تک کوئی مما ثلت نہیں پا ئی جاتی وہ ایک دوسرے کو معافی دیتے اور گارڈ آف آنر دینے پر آ گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اقتدار مل گیا تھا اور جنگ ہمیشہ اقتدارکی ہو تی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ 20 سال سے زیادہ عرصہ سیاست کرنے والا عمران خان ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔ آج جس پر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونے کا الزام پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی طرف سے لگایا جاتا ہے۔ اس بندے نے کوئی 22 سے 25 سال سیا ست کی وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے کے لئے نواز شریف کو سیاست میں ضیاء الحق لے کر آیا اور عمران خان کی سیاست کا یہ عالم تھا کے اس کو سندھ میں داخلے کی اجازت نہیں تھی اور اس کو ایئر پورٹ سے ہی واپس موڑ دیا جاتا تھا 

آج اگر ملکی سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں ایک طرف اور عمران خان اکیلا ایک طرف-کل وہ اپوزیشن میں اکیلا تھا آج وہ حکومت میں اکیلا ہے اور آج عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا سارا ملبہ اسٹبلشمنٹ پر ڈالا جا رہا ہے جو کے پاکستانی سیاستدانوں کا شروع سے ہی وطیرہ رہا ہے-عمران خان کے دو سالہ دور حکومت میں بظاھر کوئی بڑی کامیابی نظر نہیں آتی لیکن بہرحال یہ اس کی کامیابی ہی ہے کہ کل تک جو آپس میں دست و گریباں تھے آج عمران خان نے ایک ہی کنٹینر پر کھڑے کر دیے ہیں –

تحریر :حافظ محمّد بلال  

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here